بیگم
ہے شور ہر سو اٹھی ہیں نظریں دلوں میں نفرت گڑی ہوئی ہے
ابھی تو عاشق ذلیل ہوں گے جنہیں بھی وحشت چڑھی ہوئی ہے
جو خاندانی خبیث ہیں وہ مزاج رکھتے ہیں تلخ اپنا
تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ اس پہ لعنت پڑی ہوئی ہے
بخار کو آج دسواں دن ہے چلو طبیبوں سے مل کے آئیں
لبوں کی رنگت اڑی ہوئی ہے ابھی نقاہت بڑی ہوئی ہے
ذرا سا بیگم نے کیا ہے ڈانٹا کہ جا کے بیٹھے ہو پچھلے اندر
ابھی سے ڈرنے لگے ہو صاحب ابھی قیامت کھڑی ہوئی ہے
میں کیا بتاؤں کہ کل تلک تو وہ بات جس پر بہت ہی خوش تھی
کہ آج بیگم اسے ہی پھر سے بنا کے زحمت لڑی ہوئی ہے
ابھی تو آئے گی نیند تم کو ابھی تو تم کو سکوں ملے گا
ابھی تو بیگم گئی ہے مَیکے ابھی تو راحت بڑھی ہوئی ہے
خدا کی ہے ان پہ خاص رحمت ہوا ہے جن کا بھی عقدِ ثانی
ہمیں تو لگتا ہے جیسے آصف ہماری قسمت سڑی ہوئی ہے
آصف علی علوی
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.2 / 5. Vote count: 310
No votes so far! Be the first to rate this post.