تم کو شکوہ ہے
رب سے دُعا ہے میری ، تمام ہو جائے
تیری ہر مشکل ، تیری تکلیف ، تیراغم
تم کو شکوہ ہے میری مسکراہٹ سے
پسِ مسکراہٹ رکتا ہوں ، تیرا غم
میرا کیا ، میں تو عاشقِ بد نام ہوں
تیری رسوائی کے ڈرسے چھپاتا ہوں ، تیرا غم
محبت کی تھوڑی قیمت ابھی رہ گئی ہے باقی
ادا کر دوں ، گر اجازت دے ، تیرا غم
بھول جانے کا سبق ہی نہیی سکھایا تو نے
باقی سب کچھ سیکھا گیا ، تیرا غم
موت کا غم نہیں فکر ہے مجھ کو
رہا نہ میں تو کہاں جائے گا ، تیرا غم
موت بھی چھن نہیں سکتی مجھ سے
میری تقدیر میں لکھا ہے ، تیرا غم
ایک دن دل کے آبلے نے غزل لکھی
پھوٹ پھوٹ کے عنوان رکھا ، تیرا غم
لبِ گلاب پہ مچلتی ہوئی شبنم کی طرح
حسین ہے تو مگر تجھ سے حسیں ہے ، تیرا غم
بہت مناسب ہے کر لو سودا جانِ من
لے جا خوشیاں میری ، بد لے میں دے دے ، تیرا غم
کوہِ یار سے گرے ، اُٹھے میخانے میں
دیکھئے اور کہاں لے جاتا ہے ، تیرا غم
شبِ غمِ میں بہت ستاتا ہے
تیرا غم ، تیرا غم ، تیرا غم
شبِ غمِ تنہائی گزر جاتی ہے ساّحؔل
جب یاد آتی ہے تو اور تیرا غم