گلیاں دے لڑکے
گلیوں کے آوارہ لڑکے گھومتے پھرتے رہتے ہیں
عشق و عاشقی میں اپنا گزارہ کرتے ہے
اماں کی جو ڈانٹ پڑی تو کہتے ہے نکل جاؤنگا گھر سے
ابّا کو کہنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی ہے
طنز و طعنوں سے سہمے رہتے ہیں
پھر بھی کہتے ہے یار ہمارے ہم جیسے کیوں نہی رہتے
پاگل پن کا جنوں ہوتا ہے
پر انکی زندگی میں سکوں نہی ہوتا
پڑے رہتے ہے بیکار
پر ساری چیزے ان کے لئے ہوتی ہے درکار
ان میں ہوتا نہی شعور
اور کہتے ہے ہم ہے نہی مجبور
والدین غموں کے کشتی میں تیرتے رہتے ہے
سدھرنے کا نام نہی ” یہ جناب اور بگڑتے رہتے ہیں
خان صباء خاتون
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.4 / 5. Vote count: 37
No votes so far! Be the first to rate this post.