گلشن
یہ گلشن ہے آئینہ دل کا
الجھنوں کا کوئی نکال حل
گشت کو آتی ہے یاد یار یہاں
یہاں ہمیشہ رہتی ہے ہلچل
نہ کوئی صبا ہے سکون کی
نہ دنیا کا کوئی عمل دخل
یہاں باغباں ہیں پرامید
کہ بلبل آئے گا ضرور مگر
لائےگا ساتھ آپ نے وہ رنجشیں
جو پڑ گئی اگر باغ پر
تو ہر طرف ہوگی راکھ اور
یہ باغ جائے گا اجڑ
پھر دیکھے گا جب تو ریت میں
سب جان کے ہوگا بے خبر
کہ کاش دیکھتا ایک نظر
جو کہتا تھا مجھ سے بات کر
لوٹے گا پھر تو باغ میں
ملے گا سب تجھے خاکستر
پوچھے گا اس کا جہان سے
جو جہان سے تھا بے خبر
لیکن ملوں گا تجھے اس موڑ پر
مجھے چھوڑ گیا تھا تو جدھر
‘ساقی
This post is not added to the contest. Please check your email.