جگنو اور ہم
ہماری فطرت میں نہیں کسی کو اُبھرتا دیکھیں
اک مچھر نما چیز کو بھی چمکتا دیکھیں
کوئی اٹھتا ہے تو کھینچ کر بٹھا لیتے ہیں ہم
جگنو کو دیکھتے ہی قیدی بنا لیتے ہیں ہم
قید سے چھوٹنے کی جگنو کوئی حماکت جو کرے
اپنے قدموں پہ اٹھنے کی کوئی طاقت جو کرے
جگنو کو اسی وقت ہی مار دیتے ہیں ہم
ابھرتے پروانوں کو نیچے اتار دیتے ہیں ہم
جگنو اک دن اس قید سے نکل جائے گا
بزمِ افلاک میں بھی اپنی چمک دکھائے گا
مجتبیٰ جگنو آزادی میں حسیں ہوتا ہے
اور ہنر اپنی آبادی میں حسیں ہوتا ہے
انیس مجتبیٰ
This post is not added to the contest. Please check your email.