جگنو
اندھیری رات ہے مگر اک جگنو بہت ہے
میرے چاروں طرف تیری خوشبو بہت ہے
تجھے ہر پل دعاؤں میں مانگا پر مل نہ سکا
اس دل میں ابھی تک تیری آ رزو بہت ہے
تیرے سامنے الفاظ الجھ سے جاتے ہیں اپنے
بس تو. ہےجان جاں میرے روبرو بہت ہے
آ خری سانس بھی تجھ پہ لٹا دوں چاہت میں
میرے اندر تیرے عشق کا لہو بہت ہے
میں ہار جاتی ہوں ہر بار قسمت سے وگرنہ
دل میں تجھے پانے کی جستجو بہت ہے
لوگ سمجھتے ہیں چراغوں سے سجھی ہو محفل
میرے لیے بس اک تو میرے جگنو بہت ہے
دل نے تجھے چنا ہے لاکھوں ٹھکرا کر اے ہمدم
ورنہ تو حسن تیرے جیسا ہو بہو بہت ہے
عشق میں جیتے ہیں اسی میں مریں گے امرحہ
تیرے نام پہ مرنے کی ہمیں آرزو بہت ہے
Amraha Gillani
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 3.2 / 5. Vote count: 6
No votes so far! Be the first to rate this post.