جگنو کی داستاں
راہ تاریک میں کچھ جگنو بھی ملے ہم کو
سنائی داستاں انکو ملے ہمدرد جو ہم کو
تڑپ کے ایک جگنو نے ہماری دکھ کہانی پہ
کہا ہائے کہ ایسے ہی ستم گر بھی ملے ہم کو
کہا جگنو نے اسکی رعنائی ستم ڈھاتی ہے
ہر جگہ مٹھی میں قید کرنے والے ملے ہم کو
تعاقب میں رہی ہمیشہ زندگی اپنے
لیکن رہے موت سے ہمیشہ گلے ہم کو
سب ہی نئیرنگِ جہاں میں بدلتے گئے
بڑی حسرت رہی کوئی قیس سا ملے ہم کو
مثل خوشبو جو باد صباء میں رہا کرتے تھے
ملے بھی تو خاک میں مل کر ملے ہم کو
صفحہء دہر پہ تیری اے میرے ربِ کریم
کیوں اک سے بڑھ کے اک منافق ملے ہم کو
نویدِسحرہویا ہو مژدہء شبِ دیجور
قبول کرتے ہیں ان سے جو بھی ملے سزا ہم کو
رفعت جوڑ ہی کیا ہے ان کا اور ہمارا
وہ صباء کا جھونکا کہاں صحرا میں ملے ہم کو
رِفعت فاطمہ
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 5 / 5. Vote count: 1
No votes so far! Be the first to rate this post.