کہاں
کہاں کوئی کسی کو یاد کرتا ہے
یوں تو سب یہاں باتیں ہی ہوتی ہیں
کہاں کوئی لب پہ کسی کا نام لاتا ہے
سحر سے پہلے اکثر شمعیں بجھی ہوتی ہیں
کہاں کوئی گلے لگ کہ اب مناتا ہے
خوابوں بھری آنکھیں بھی وقت سے بوڑھی ہوتی ہیں
کہاں اب پہلی سی محبت یہاں ملتی ہے
ان گنت پلوں میں چھپی کئی یادیں ہوتی ہیں
کہاں دو پل کو بھی یہ آنکھیں بند ہوتی ہیں
شورِ دنیا ہے یا جگنوئوں کو ڈھونڈتی ہیں
تاب، کہاں اب تو لوٹ کر بھی نظر جاتی نہیں ہے
راحتیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے زندگیاں تمام ہوتی ہیں
طیبہ حفیظ
This post is not added to the contest. Please check your email.