کیا شام تھی وہ
کیا شام تھی وہ
کیا برسات تھی وہ
کیا پل تھا وہ آیا تھا جو
تجھے میرے قریب کر گئی جو
ہمیشہ یاد آتی ہے شام وہ
برسات کے پانی سے بچنے کے لیے
شرما کے چھوٹے سے سور میں
مجھ سے تیرا پہلی بار بات کرنا
بات کرتے سمے چہرے پہ شِکن آنا
پھر تیرا ذرا سا شرمانہ
اور اپنے ہونٹ کو دانتوں سے کاٹنا
میرے ساتھ تیرا چلنا چلتے چلتے ٹکرانا
اور وہ بجلی چمکنے پر میرا ہاتھ پکڑنا
اور پھر شرما کر میری اور دیکھ کر ہنسنا
وہ تمہارے گھر پہ تمہیں چھوڑنا
مجھے چائے پلانے کی ضد کرنا
رات ہو جانا چائے کے ساتھ وہ بیٹھے بیٹھے باتوں باتوں میں
اور جاتے سمے آپ کو آخری بار دیکھنا
آج بھی وہ حسیں شام یاد ہے
عائشہ عاصم