کیا یہ جگنوؤں کا در نہیں ہے
روشنی دیپ کہ اندر نہیں ہے
کیا یہ جگنوؤں کا در نہیں ہے
کشتی تو ہے سمندر نہیں ہے
ہر جھومنے والا قلندر نہیں ہے
قلمکار قلم سے سرقلم کرچکا ہے
مداری کے پاس بندر نہیں ہے
شمع کہ پہلو میں بیتے شب کوئی
ایسا پروانے کا مقدر نہیں ہے
روز ازل کا نکالا ہوا بہشت سے
کہتا پھرتا ہے دربدر نہیں ہے
فنا ہونا شمع میں جل کہ پروانے سی
تڑپ جگنو کے اندر نہیں ہے
جھکے جبیں جو اوروں کے در پہ
انکی قسمت میں تیرا در نہیں ہے
ہر بُو سالارؔ پھول کا مقدر نہیں ہے
ہر سالک مجذوب قلندر نہیں ہے
حمزہ سالارؔ
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.7 / 5. Vote count: 90
No votes so far! Be the first to rate this post.