شام
کِسی شام میں دستک دوں تیرے در پہ
تو بٹھائے آنگن میں، مجھے اپنے گھر کے
تُو پوچھے حال میرا تھوڑا شرما کر کے
اِک ہچکی میں کہہ ڈالوں سب نظر جھکا کر کے
پرکھیں اُس لمحے پھر اِک دوجے کے احساسات
آشنا سی اجنبیوں میں چلے پھر یونہی بات سے بات
گردش کریں بے صبری سے اَن گِنت سوالات
!خدا جانے پھرکب ہودل افگار کی تجھ سے ملاقات
پھر گزارش ہو ہماری کیوں نہ ہو چائے کا نام
تو بےتکّلف ہو کر گنوا دے اور ہزار کام
اِس بےرُخی کے ساتھ ہم کریں اِس حسرت کو تمام
پر چاہت ہے کہ دل آرا کے سنگ بھی گُزرے کوئی سُرمئی شام
وردا خالد
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.4 / 5. Vote count: 15
No votes so far! Be the first to rate this post.