شاہین
شاہینوں کی بھی کیا خوب پرواز ہے
جو اپنی زبان نہ بول سکے وہ آواز ہے
ہر روز عشق کا کلھتا نیا باب ہے
پکی محبوبہ مگر فقط شراب ہے
دل زندہ کرنے کی باتیں کر گئے اقبال
یہاں تو شاہین بچوں کی عقل کو آ گیا زوال
کہ شاہین بناتا نہیں کوئی آ شیانہ
ہر روز نئی عزیزہ ہے دل لگانے کا بہانہ
ان جوانوں کو کیسے لگے آہ سحر
پرائے تہواروں میں جو سجاتے ہیں شہر
حاؔئقہ کیوں نہ چھوڑ جاؤ شاہینوں کا یہ گھیرا
کہ ہنسانے کو تو دنیا میں ہر سو سجا ہے میلا
حائقہ كلیم
This Poetry is added to the contest. Please read the contest number 10 rules