سایہء عاشقی میں یہ دل تھام بیٹھیئے
بہتر ہے اس جگہ سبھی بے نام بیٹھیئے
کہیں ڈگمگا نہ جائیں قدم بحر شوق میں
سب کچھ بھلا کے پیار کے انجام بیٹھیئے
یہ ہے نگار خانہء کئی دل جلوں کا دیس
صبح دوپہر یا ہو کوئی شام بیٹھیئے
کاٹے ہیں قیدوبند کے مراحل اس عشق نے
بعد از ضمانتوں کے کھلے عام بیٹھیئے
شائد تمہارا نام لکھا ہے دلوں کے بیچ
بہتر ہے سب کے سامنے گمنام بیٹھیئے
مے خانہء محبت تیرے نام ہیں عجیب
ہے اولین تقاضا بنا جام بیٹھیئے
نازش سجی ہیں ساری محبت کی محفلیں
اب ہو گا کیا نہ سوچیئے انجام بیٹھیئے
اردو شاعری مقابلہ نمبر 5 جو آن لائن اردو پوئٹری کا نٹیسٹ ڈاٹ کام پر ہوا۔ جس میں 44 شعراء نے حصہ لیا۔ اس مقابلہ میں احمد شہزاد طاہر سر فہرست رہیں۔
اردو شاعری مقابلہ نمبر 4 جو آن لائن اردو پوئٹری کا نٹیسٹ ڈاٹ کام پر ہوا۔ جس میں 32 شعراء نے حصہ لیا۔ اس مقابلہ میں محترمہ للائبہ قیوم سر فہرست رہیں۔ اس وقت اردو شاعری مقابلہ نمبر پانچ کی ووٹنگ جاری ہے جس کا اعلان بروز 19 ستمبر کیا جائے گا.
اردو شاعری مقابلہ نمبر 3 جو آن لائن اردو پوئٹری کا نٹیسٹ ڈاٹ کام پر ہوا۔ جس میں 20 شعراء نے حصہ لیا۔ اس مقابلہ میں محترمہ صبا امتیاز سر فہرست رہیں
محبت کا جہاں میں گر محبت ہی صلہ ہوتا
نہ آ نکھوں سے کسی کی درد کا آ نسو گرا ہوتا
یہ تیری دل نشیں دنیا بھی جنت کی طرح ہوتی
سرشت آدمی کو بس نہ اتنا شر دیا ہوتا
جہنم پیٹ کا رکھا ہے تو نے ساتھ انساں کے
سمندرخواہشوں کا جسم کو کچھ کم دیا ہوتا
ملا کیا اس کو سچائی کے رستے پر قدم رکھ کر
کہ ایسی نیک نامی کا یہاں کچھ تو صلہ ہوتا
رہے ہیں ناتواں زیبی کو اتنے دردوغم تو نے
دیا اک آس کا دل میں جلا کر رکھ دیا ہوتا
Is chashm e num pe Pyar ka unwaan dekh ker
Wo chal diye ghareeb ka armaan dekh ker
Nazrain jhuka k sharm se tehzeeb chal parhi
Nadim hoi wo aj ka insaan dekh ker
Kahein Eid k asraaf ki tafseel chhirh gye
Koi ro parha he aamid e ramadan dekh ker
Fikr o fun laeen ki nobat Kahan rahi
Tadbeer seekhta he Yaan shetaan dekh ker
Kajal wo surkh hont to zulfain saji hoi
Ik khalbali he qatal ka samaan dekh ker
Shair o sukhan se ho sakay jitnay raho parray
Samjho na itna kaam ye asaan dekh ker
Tujh ko Jo nagwaar thay dunia se chal diye
Amir na ho ab is tra heraan dekh ker
بےخودی کی بھی کچھ ضرورت ہے
سرخوشی کی بھی کچھ ضرورت ہے
تنگ آنے لگا ہوں خوشیوں سے
بے کلی کی بھی کچھ ضرورت ہے
جو سسکتے ہیں ایسے لمحوں کو
زندگی کی بھی کچھ ضرورت ہے
تم مرے سامنے رہو جاناں
شاعری کی بھی کچھ ضرورت ہے
ایسا لگتا ہے میرے خوابوں کو
خودکشی کی بھی کچھ ضرورت ہے
آتی جاتی ہماری سانسوں کو
آدمی کی بھی کچھ ضرورت ہے
میری تاریک شب کو اے شاکر
چاندنی کی بھی کچھ ضرورت ہے
رستے میں تو صحرا ہے ،گلزار مدینہ ہے
گھر ہے شہ شاہاں کا،شہکار مدینہ ہے
اک بار کھلی آنکھوں، طیبہ کی زیارت کی
اب چشم تصور میں، ہر بار مدینہ ہے
پھر تازہ وضوکر لو ،ہے حد حرم نزدیک
چند ایک پہاڑیوں کے ،اس پار مدینہ ہے
تھا عہد ،ہمہ تن گوش اصحاب اور ان کے بیچ
آقا صلى الله عليه وآله وسلم میرے بیٹھے ہیں ،دربار مدینہ ہے
پھلواریاں پھولوں کی طیبہ میں تکلف ہیں
چو گرد ہے روضے کی مہکار ، مدینہ ہے
میں میں نہیں رہتا ہوں یکسر ہوں بدل جاتا
دل وجد میں آیا ہے ،سر شار مدینہ ہے
وہ شہر ہے پاکیزہ ،آسودگی خندہ رو
اللہ کی رحمت کا اظہار مدینہ ہے
دن کو بھی ہے اک رونق، شب کو بھی ہے آب و تاب
آٹھوں ہی پہر یعنی بیدار مدینہ ہے
بیانی ،بہت شہروں کا دہر میں شہرہ ہے
پر سر پہ فضیلت کی دستار مدینہ ہے
کچی چھت پر بارشوں کا شور بھی اچھا لگا
ہم وہ سادہ لوح جن کو چور بھی اچھا لگا
شاہ زوروں اور زرداروں کے دلدادہ بہت
ہے فرشتہ خو جسے کمزور بھی اچھا لگا
بد زبانی اس نے کی پر اس سے مجھ کو کیا غرض
پاس سے دیکھا اسے تو اور بھی اچھا لگا
کشتی والے کب تلک کرتے سمندر سے گریز
پیاس اتنی تھی کہ آب شور بھی اچھا لگا
اسکو کیا دیکھا کہ اسکے ہو کے ہی ہم رہ گئے
عشق کا یہ طور اور فی الفور بھی اچھا لگا
اس نے کچھ دن سوچ کر گو عزت یارانہ کیا
کچھ دن اپنا نام زیر غور بھی اچھا لگا
حق کے رستے میں مدینہ یونہی آجاتا نہیں
قبل از صحرا وہ جبل ثور بھی اچھا لگا
نکلے ہیں بیبانی جھنجھٹ سے جو ہجر و وصل کے
اب ہمیں یہ بے تعشق دور بھی اچھا لگا
در بدر زندگی ہے دنیا میں
کیسی یہ بے بسی ہے دنیا میں
زندگی کے نقوش ہیں مدھم
موت کی آ گہی ہے دنیا میں
ایک درویش کہتا جاتا تھا
بے وطن آدمی ہے دنیا میں
ہر ضرورت کی شے میسر ہے
بس تری اک کمی ہے دنیا میں
چاہتیں، حسرتیں، تمنائیں
زندگی ڈھونڈھتی ہے دنیا میں
گرتی دنیا اگر نہیں سنبھلی
یہ صدی آخری ہے دنیا میں
ساری دنیا سکون ڈھونڈتی ہے
بےکلی ہر گھڑی ہے دنیا میں
صرف معبود کے سوا شاکر
کچھ نہیں دائمی ہے دنیا میں
حقیقت بھی خواب سی اب لگنے لگے
روشنی بھی اندھیرے سے یہاں ڈرنے لگے
وحشت بھری، اس روح میں کہیں
اب یقین بھی گماں سے نہ تھکنے لگے
قبروں سا سکون لیے، یہ چہرے ہمارے
اور دل انکے عذابوں سے بھرنے لگے
ٹمٹماتی ہوئی ان آنکھوں میں، اب
امید بھی چھپ کر نہ سِسَکّنے لگے
خوشیوں کی ٹوٹی ہے کٹیا ایسے
کہ درد ہی محض اب سکوں بننے لگے
سمجھنے سے قاصر ہوں بس یہ بات
ہیں کن خیالات میں ہم اب بھٹکنے لگے
علم و ہنر کی پیاس بڑھتی ہی جائے
کاہلی بدن سے تمام نکلتی ہی جائے
گزاریں اوقات بالکل احسن طریقہ پر
بنتے پھر ہر ہر لمحہ قیمتی ہی جائے
رہتی ہے مٹی زرخیز جس علاقہ کی
تو رت وہاں کی اچھوتی ہی جائے
ہو جب بتی ہری اور سیٹیاں بجیں
ریل خوشیوں کی دندناتی ہی جائے
اکھڑ جائیں کبھی قدم ناصر راہ میں
دعا ماں کی ہر منزل کام آتی ہی جائے
First online Urdu Poetry online magazine for all poets in Urdu language. Urdu competition news. Poetry for kids. contact us admin@urdupoetrycontest.com