تعلقات کا بوجھ
تعلقات کا بوجھ اب اٹھایا نہیں جاتا
کوئی روٹھے مجھ سے اب منایا نہیں جاتا
ٹوٹا دل لے کر میں کیسے چل پڑوں؟
تیری یادوں کا بوجھ اب اٹھایا نہیں جاتا
بدتمیز ، بدمزاج، بد لحاظ ہو گیا ہوں میں
کیا کروں مجھ سے اپنا آپ دفنایا نہیں جاتا
دلاسے دیتا رہے بھلے ہی یہ زمانہ مجھ کو
مگر مجھ سے وہ ایک شخص بھالیا نہیں جاتا
قسمت کا کھیل ہے اس میں کیا مداخلت پیارے
خدا کا گھر ہے یہ دل اس کو جلایا نہیں جاتا
تمھارے اپنے ہی الفاظ کھولتے ہیں سب راز قلاشّ
وگرنہ کسی شاعر کا یوں مزاق اڑایا نہیں جاتا