محبت اخلاقیات
تہزیب مسلم کو کچل ڈالا اثر فرنگی نے
گرفتہ ہے تو نیرنگی خیال عام میں ابھی تک
توقع ہے تجھے کیا ورثہ فرنگی کے مکتب سے
خود کوپھنسا رکھا ہے خیالی دام میں ابھی تک
تھا گامزن امید بہار میں گلستان کی جانب
حیف کانٹوں میں الجھا کے رکھا ہے صبح وشام ابھی تک
ہے امید تجھے ابن سینا کی مکتب فرنگ سے
کیسا مبتلآ ہے خود فریبی کا تو لےکر جام ابھی تک
ان مادہ پرستوں نے بچھا رکھے ہیں دام فریب
لگائے بیٹھا ہے تو امید گلشن و گلفام سے ابھی تک
سرگرداں ہے شب و روز صحرانوردی میں
گھیرے ہوئے تجھے ہے عشق نا تمآم ابھی تک
ہے علم فروشوں سے توقع خیر خواہی کی
کتنا سادہ ہے کہ تھامےہے یہ لگام ابھی تک
ہو کے اخلاق حسنہ گم یہاں مکتب کے بیچ
ہائے افسوس یہاں ہوتا ہے علم کا نیلام ابھی تک
دیتی ہے مہکی فضا صدا بندہ ناچیز کو
گلستان مشرق میں محبت کا چھپا ہے نام ابھی تک
نذیر ناچیز
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 3.7 / 5. Vote count: 17
No votes so far! Be the first to rate this post.
This Post Has 2 Comments
The words used in this poem are best and modest. Its a poem that effects the soul of the reader.
Excellent