زندگی اپنی
قلم کار ہوں میں جیون کاٹ کے آیا ہوں
یارو میں آج ایک اور غزل پھاڑ کے آیا ہوں
میرے ہونے سے اگر کچھ ہے بھی تو کیا
میں اپنی شاعری سے سب کو بگاڑ کے آیا ہوں
زندگی کتنی مشکل ہے جان گیا ہوں
میں سمندر میں کشتی اتار کے آیا ہوں
موم کی طرح رہی ہے کچھ زندگی اپنی
جل جل کے اپنا حولیا بگاڑ کے آیا ہوں
کہ جب تلک ہاتھ میں ڈور تھی اپنے
رشتوں کو اپنے میں سدھار کے آیا ہوں
توڑ دیا اپنے ہی ہاتھوں سے کاسہ عشق
دل کی بستی کو آج اجاڑ کے آیا ہوں
تمھیں لگتا ہے یہ ہجر زدہ چہرہ، نہیں
میں ایک شہزادی کا روپ سنگھار کہ آیا ہوں
تم پوچھتے ہو یہ اداسی کا سبب قلاشّ
میں اپنے ہاتھوں سے اپنا جسم گاڑ کے آیا ہوں