جگنو
رات پھیلی تو آنگن بھرا جگنوؤں سے
زرا بھر اندھیرا گھٹا جگنوؤں سے
پتنگے نکل کر بتانے کو آئے
کیسے جلنا ہے انکو سکھانے کو آئے
حوصلہ جگنوؤں کا بجھانے کو آئے
ساتھ ہی ساتھ شمع دِکھانے کو لائے
مثلِ شمع نہ روشن کبھی بن سکو گے
اندھیروں سے آخر کب تک لڑو گے
اک جگنو جگ مگ کرتا مسکرایا
رُک کر اُس نے اتنا بتایا
ہمیں اِس طرح سے ہے رب نے بنایا
وہی جس نے تم کو بھی اُڑنا سکھایا
روشنی تو ہے ناں کیا ہے جو کم ہے
ملال ہے مجھ کو نہ ہی اسکا غم ہے
اندھیروں سے ڈرایا جا سکتا ہے
شمع کو بجھایا جا سکتا ہے
تمہیں پاس بلایا جا سکتا ہے
شعلے سے جلایا جا سکتا ہے
میں شمع کسی کا پابند نہیں ہوں
روشنی ہوں خود ضرورتمند نہیں ہوں
عمامہ یوسف
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 2.5 / 5. Vote count: 4
No votes so far! Be the first to rate this post.