پرانی شام
اک روز بلا رہی تھی پرانی شام
وعدے نبھا رہی تھی پرانی شام
کچھ دور ہے میری نظر سے وہ
مگر مسکرا رہی تھی پرانی شام
پرندے بھی پلٹ گئے تھے اس وقت
جب دل جلا رہی تھی پرانی شام
بہت خوشی سے بچھڑا اس وقت
جب درد سنا رہی تھی پرانی شام
آخری الوداع کا واسطہ دیتے ہوئے
بہت ستا رہی تھی پرانی شام
اس نے میرے کنگن تک نہ پہنے تھے
پھر بھی سجا رہی تھی پرانی شام
سب ختم ہونے تک آیا ہے مجھ میں
کسی کو بتلا رہی تھی پرانی شام
عمیر عمر حیات
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.3 / 5. Vote count: 7
No votes so far! Be the first to rate this post.