شام
جب شام ڈھلنے لگے تو واپس آجانا
کچھ اپنی کہنا، کچھ ہماری سننا
کچھ تلخیوں میں مٹھاس ہے بھرنی
کچھ افسانے، جو دل میں دفن ہے اب عیاں ہے کرنے
کچھ کرب کے حالات ہمیں بھی بیان ہے کرنے
تیری یاد کی تپعش کی حدت بھی عیاں ہے کرنی
میرے صبر کی خوشبو چارسو معطر ہے کرنی
وقت بھی اپنا غرور توڑ بیٹھا ہے
وہ بھی اپنی سانسیں تھامے بیٹھا ہے
تیرے آنے کی امید میں خود کو باندھے بیٹھا ہے
بس ایک التجاء ، بس ایک خواہش
بس ایک بار تجھے سینے سے ہے لگا نا
جب شام ڈھلنے لگے تو واپس آجانا
جب شام ڈھلنے لگے تو واپس آجانا
نور فاطمہ
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.2 / 5. Vote count: 6
No votes so far! Be the first to rate this post.
This Post Has One Comment
Awesome