لگی ڈھلنے ہے پھر سے شام ساقی
لگی ڈھلنے ہے پھر سے شام ساقی
بنا کر دے ذرا اِک جام ساقی
پِلا وہ جام جو مدہوش کر دے
مِلے دل کو بھی کچھ آرام ساقی
چلا آیا ہوں تیرے پاس جو میں
نہیں مرنے سوا کچھ کام ساقی
نہ اُس کا اور نہ اپنا بنا میں
نہیں مجھ سا کوئی ناکام ساقی
یونہی گِر کے سنبھلنا سیکھنا ہے
سہارا دے مجھے نہ تھام ساقی
دَورِ عُسرت میں مجھ سے ہے گریزاں
اچھے وقتوں کا اِک ہم جام ساقی
ہے قاصر آج جو پہچاننے سے
ترکِ تعلق کے ہیں اقدام ساقی
بنا وہ مے جو ماضی کو بھُلا دے
میں دونگا جو بھی ہونگے دام ساقی
طارق اقبال حاوی
How useful was this post?
Click on a star to rate it!
Average rating 4.5 / 5. Vote count: 51
No votes so far! Be the first to rate this post.
This Post Has 4 Comments
بہت خوب بھائی
بہت شکریہ و نوازش محترم
آپکی خوش نظری ھے.
بہت خوب جناب.. ان سب میں بہتر ہے
بہت شکریہ محترم آپکی خوش نظری اور محبت ھے.
زوق کی سلامتی ھو شاد رھیں آباد رھیں